حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباََ5لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کر چکے ہیں ۔ان کی نامور شہر آفاق کتاب’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘پڑھنے کے قابل ہے۔
گاڑی میں بیٹھے ساتھیوں سے جو اچانک کسی چیز کے گاڑی کے سامنے آجانے کے بعد لگائے گئے بریک کے جھٹکے سے بیدار ہوئے تھے‘ یہ حقیر ایک ایک کرکے معلوم کرنے لگا آپ کہاں جارہے ہیں؟ دو نے کہا: آپ کے ساتھ جارہے ہیں‘ میں نے پوچھا کہاں؟ بولے سونی پت‘ ایک صاحب جن کو راستہ میں اترنا تھا انہوں نے اس منزل کا نام لیا۔ یہ حقیر اپنی یاددہانی کے طور پر جو کچھ دیر سے چلی ذہن کی کیسٹ کی وجہ سے دل و دماغ پر سوار تھا‘ بولا کیا آپ لوگوں کا قرآن مجید پر ایمان نہیں ہے؟ قرآن مجید تو فرما رہا ہے: ’’بے شک ہماری ہی طرف ان کا لوٹنا ہے پھر ہمارے ہی پاس ان کا حساب ہے‘‘ (الغاشیۃ :24،25) دہلی سے سونی پت کے کار کے سفر میں ذرا سے جھٹکے نے جیسے ان نیند میں مدہوش ساتھیوں کو بیدار کردیا تھا‘ اس حقیر کو غفلت کی زندگی کے سفر میں اچانک اس جھٹکے سے اس طرف توجہ ہوئی۔
سونی پت شہر میں بستی کے لوگوں کا مشورہ مطلوب تھا‘ اس حقیر نے اپنے ایک ذمہ دار کو فون کیا‘ فلاں فلاں صاحبان کو ضرور بلالیں‘ انہوں نے اس میں سے دو صاحبان کے بارے میں بتایا کہ ان میں سےایک کا انتقال دوسال قبل اور ایک کا ڈیڑھ سال قبل ہوگیا ہے‘ اچانک جیسے ذہن میں ایک جھٹکا لگا ہو، سونی پت میں ابتدا میں ساتھ دینے والے اور تعلق رکھنے والوں کی ذہن میں فہرست بنانے لگا‘ جو ہماری طرح زندگی کے پلان بناتے تھے‘ اور ان میں سے بہت سے خیر کے کاموں کے بھی خاکے بناتے تھے۔ پھر آس پاس کی بستیوں کے ان لوگوں سے ہوتے ہوئے‘ دل و دماغ اپنی بستی اور اپنے عزیزوں‘ رفیقوں کی طرف منتقل ہوتا گیا جو ہمارے ساتھ رہتے تھے اور ہوسکتا ہے کہ ہماری ہی طرح اس دنیا میں لمبی مدت تک رہنے کی امید پر خاکے بناتے رہے ہوں مگر ان کی زندگی کا سفر ختم ہوگیا، اچانک ایسا لگا کہ ساتھ رہنے والے اکثر لوگ اتنے شفیق اور عنایت کرنے والے بڑے‘ بلااستحقاق عنایت فرمانے والے کتنے اکابرین‘ اپنی دولت‘ مناصب اور شان پر فخر کرنے والے کتنے لوگ‘ جو اپنی اپنی سطح سے اس دنیا میں ایک وقار‘ شان اور مقبولیت اور مقام رکھتے تھے‘ اس زمین کا حصہ بن گئے اب یا ان کی زندگی ایک قصہ پارینہ بن گئی یا ان کی یادیں زندگی گزارنے کا حصہ ہوگئیں۔ نبی رحمت ﷺ نے کیسا ہوشیار فرمایا ہے: ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یا راستہ پار کرنے والا‘‘ اف! ایسی ناپائیدار زندگی‘ اور خواب کی طرح ختم ہونے والی زندگی کے سفر کو آدمی نے سفر سمجھنے کے بجائے ایسا ٹھکانہ اور مستقر بنا کر کیسی حماقت کی ہے‘ یہ دنیا کی ناپائیدار زندگی جس میں انسان چلتی ریل گاڑی کی طرح پیدا ہونے کے بعد سوار ہوجاتا ہے اور جس کا گر آیا‘ موت کے راستہ سے اتر جاتا ہے۔
آدھی صدی کی ہماری مختصر زندگی میں کتنے سوار بلکہ کتنے ہمارے سامنے سوار ہوکر اتر کر چلے گئے‘ کتنے لوگوں کو اپنے سامنے اترتا چڑھتا دیکھ کر اور اپنے ہاتھوں کتنے جنازوں کو نہلا کر‘ کفنا کر اور دفنا کر‘ اور نہلاتے دفناتے دیکھ کر اور جنازوں میں روز روز شریک ہوکر بھی آدمی اس طرح جئے جیسے وہ اسی دنیا کا مکین ہے، کیسی حماقت ہے۔ اور انسان غفلت میں زندگی کے اس ناپائیدار سفر میں نہ جانے کیسے کیسے طویل خواب دیکھتا ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو کوئی اچانک بریک کا جھٹکا بیدار کردیتا ہے اور وہ زندگی کے اس سفر کو، سفر سمجھ کر بیداری کے ساتھ اپنے حقیقی گھر آخرت کی تیاری کیلئے گزارنے لگتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جو ہوشیار ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کی حیات لوگوں کیلئے مشتعل راہ اور مینارہ نور بن جاتی ہے۔ جو ہمیشہ کے گھر آخرت کی تیاری کیلئے ہوشیار اور دنیا کے دھوکہ کے سفر کی ناپائیداری کیلئے خبردار رہتا ہے یہ انسان کی زندگی کی چولوں کی ٹھیک رکھنے کی شاہ کلید ہے‘ کاش! ہم ان خوش قسمت ہوشیار سمجھ دار لوگوں میں شامل ہوں!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں